تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । ماہ رمضان المبارک کے چھٹے دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں ’’اَللّهُمَّ لا تَخْذُلني فيہ لِتَعَرُّضِ مَعصِيَتِكَ وَلاتَضرِبني بِسِياطِ نَقِمَتِكَ وَزَحْزِحني فيہ مِن موُجِبات سَخَطِكَ بِمَنِّكَ وَاَياديكَ يا مُنتَهى رَغْبَة الرّاغِبينَ‘‘
خدایا! مجھے اس مہینے میں اپنی نافرمانی کی وجہ سے ذلیل نہ فرما اور مجھے اپنے انتقام کا تازیانہ نہ مارنا۔ اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھنا، اپنے فضل و عطا اور احسان کے واسطے، اے رغبت کرنے والوں کی آخری امید۔
’’اَللّهُمَّ لا تَخْذُلني فيہ لِتَعَرُّضِ مَعصِيَتِكَ‘‘
خدایا! مجھے اس مہینے میں اپنی نافرمانی کی وجہ سے ذلیل نہ فرما۔
گناہ انسان کو ذلت اور بندگی انسان کو عزت عطا کرتی ہے۔ اگر انسان اللہ کا فرمانبردار بن جائے تو عزیز بن جاے گا اور اگر گناہ کرے گا تو ذلیل و رسوا ہو جائے گا۔
عزت کا اصل سرچشمہ خداوند عالم کی ذات ہے، انبیاء ، مرسلین اور اولیائے خدا خصوصا ائمہ معصومین علیہم السلام کی عزت اسی کی عطا و عنایت ہے کیوں’’وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ ‘‘ عزت خدا، رسول ؐاور مومنین سے مخصوص ہے لیکن منافقین یہ نہیں جانتے۔ (سورہ منافقون۔ آیت۸)
جس طرح اللہ نے خلقت اور رزق کو اپنے اختیار میں رکھا اسی طرح عزت و وقار کو بھی اپنے اختیار میں رکھا۔ جیسا کہ سورہ آل عمران کی۲۶ نمبر آیت میں ارشاد ہو رہا ہے۔’’ قُلِ اللّـٰـهُـمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِى الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُۖ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْـرُ ۖ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ‘‘
کہہ دیں اے اللہ! اے بادشاہت کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے، جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے تو چاہتا ذلیل کرتا ہے، تمام خوبیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
عزت اللہ سے مخصوص ہے اور جسے وہ چاہتا ہے عزیز بناتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے دعائے عرفہ میں فرمایا:’’ یا من خص نفسه بالسمو والرفعة فاولیائه بعزه یعتزون‘‘۔ ائے وہ (خدا) جس نے بلندی اور رفعت کو خود سے مخصوص کیا اور اپنے اولیاء کو اپنی عزت سے عزیز کیا۔
ظاہر ہے جب عزت پروردگار سے مخصوص ہے تو وہ جسے چاہے گا عزیز بنائے گا اور اس نے اپنے اولیاء کو اپنی عزت سے عزیز بنایا بھی ہے تو اب جو انسان چاہتا کہ با عزت بنے اسے نہ دنیا کی شہرت عزیز بنا سکتی ہے، نہ دنیا کی دولت عزیز بنا سکتی ہے اور نہ دنیا کا عہدہ و منصب اسے صاحب عزت بنا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ دنیا کی دولت، شہرت، عہدہ اور منصب کی چمک انسان کو یہ تصور کرا دے کہ وہ صاحب عزت بن گیا ہے لیکن اگر اس کے اندر ایمان نہیں، اخلاص نہیں، اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری نہیں تو ہلاکت و ذلت اس کا مقدر ہے۔ جیسا کہ امیر کلام حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: جو اللہ کے علاوہ سے با عزت بنے گا وہی عزت اسے ہلاک کر دے گی۔ (بحارالانوار،جلد ۷۵، صفحہ ۱۰)، جو اللہ کے علاوہ سے صاحب عزت ہوا وہ ذلیل ہو گیا۔ (میزان الحکمہ، جلد ۵،صفحہ ۱۹۵۷)
تاریخ نے دیکھا کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب شہید کر دئیے گئے اور اہل حرم کو اسیر کر لیا گیا۔ یزید اور اس کے فوجیوں نے اپنی فتح کا نقارہ بجایا لیکن عزت شہداء اور اسراء کو نصیب ہوئی اور ذلت و رسوائی قاتلوں اور ظالموں کا مقدر بن گئی۔ یہی وجہ تھی جب مبلغہ پیغام کربلا شریکۃ الحسین حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے سامنے یزیدیت نے اپنی فتح اور عزت کا اعلان کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا:’’ فَکِد کَیْدک وَاسْعَ سَعْیک و ناصِبْ جُهْدَک فوالله لا تمحُو ذکرنا و لا تُمیتُ وَحْیَنا‘‘ تجھے جو مکاری کرنی ہو کر لے، جو بھی سازشیں رچنی ہو رچ لے لیکن خدا کی قسم نہ تو ہمارے ذکر کو مٹا سکتا ہے اور نہ ہی ہماری وحی کو ختم کر سکتا ہے۔ (مقتل الحسین مکرّم، صفحہ ۴۶۴) حضرت زینب علیاء مقام کے اس دنداں شکن جواب پر یزید پلید کا سکوت بتا رہا تھا کہ وہ قتل کرنے اور اسیر کرنے کے بعد بھی ذلیل ہو گیا کیوں کہ وہ اللہ کا نا فرمان تھا لیکن اہلبیت علیہم السلام شہادت و اسارت کے بعد بھی عزیز ہو گئے کیوں کہ وہ اللہ کے فرمانبردار اور اس کے اولیاء تھے۔
مذکورہ مطالب سے یہ بات واضح ہو گئی عزت اللہ پر ایمان اور اسکی اطاعت میں ہی ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’ انی وضعت العز فی قیام اللیل والناس یطلبونها فی ابواب السلاطین فلم یجدوه ابدا‘‘۔ میں نے عزت کو نماز شب میں رکھا ہے اور لوگ اسے بادشاہوں کے دروازوں پر تلاش کرتے ہیں لہذا کبھی بھی انہیں عزت نہیں ملے گی۔ (العددیة صفحہ ۳۰۹) رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا’’ ان ربکم یقول کل یوم: انا ربکم انا العزیر فمن اراد عز الدارین فلیطع العزیز‘‘۔ تمہارا پروردگار ہر دن یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں، میں صاحب عزت ہوں۔ جو بھی دو جہاں میں عزت کا خواہاں ہے وہ (مجھ) عزیز کی اطاعت کرے۔ (میزان الحکمہ، جلد ۵، صفحہ ۱۹۵۸) مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’ من اذل نفسه فی طاعة الله فهو اعز ممن تعزز بمعصیة الله‘‘ جو بھی اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کو خوار کرے گا وہ اس سے زیادہ عزت والا ہے جو اللہ کی نافرمانی کر کے صاحب عزت بنا۔ (کنزالعمال، جلد ۲، حدیث ۴۲۰۸۴) دوسرے مقام پر آپؑ فرماتے ہیں: ’’ اذا طلبت العز فاطلبه بالطاعة‘‘ اگر عزت کے طلبگار ہو تو اللہ کی اطاعت کے ذریعہ عزت دار بنو۔ (غررالحکم، شمارہ ۴۰۵۶)
اہلبیت علیہم السلام اللہ کے اطاعت گذار بندے تھے لہذا عزت ان سے مخصوص ہے لیکن ان کے دشمن اللہ کے نافرمان تھے لہذا دو جہاں کی ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی، نہ حکومت انہیں باعزت بنا سکی اور نہ دولت ان کو با وقار بنا پائی۔ جب قیس بن اشعث نے امام حسین علیہ السلام سے یزید پلید کی بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم ذلیلوں کی طرح نہ تمہاری بیعت کروں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار کروں گا۔ (مقتل الحسین،صفحہ ۲۵۶) امام حسین علیہ السلام نے بتا دیا کہ ظالم و جابر اور ستمگر کی بیعت کا مطلب ذلت و رسوائی ہے۔
وَ لاَ تَضْرِبْنِی بِسِیَاطِ نَقِمَتِکَ اور مجھے اپنے انتقام کا تازیانہ نہ مارنا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ جملہ مخلوقات، خدا کا لشکر ہیں۔ اللہ زلزلہ، طوفان، سیلاب، وبا سے بھی بدلا لے سکتا ہے۔ چھوٹے سے پرندہ اور کیڑے مکروڑوں سے بھی انسان کو سبق سکھا سکتا ہے۔ نمرود کو ایک مچھر سے ذلیل کرایا اور ابرہہ کے لشکر کو ابابیل سے۔ دور حاضر میں کرونا وبا نے انسان کو اسکی حقیقت سمجھا دی۔ وَ زَحْزِحْنِی فِیهِ مِنْ مُوجِبَاتِ سَخَطِکَ اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھنا۔روایت میں ہے کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جنہیں اللہ معاف نہیں کرتا بلکہ ان پر سزا یقینی ہے۔لہذا ہمیں ہر لمحہ اللہ کی بندگی کی کوشش کرنی چاہئیے۔